تاجِ تغزل کا آبدار موتی
مولانا ریاست علی ظفرؔ بجنوری
یوں تو اردو زبان روز اوّل ہی
سے اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر لوگوں کی منظور رہی
ہے اورآج اپنی بوقلمونی سے لوگوں کے ذہن و دماغ کو مسخر کررہی
ہے۔ اس زبان کے ارتقائی سفر میں جہاں ادباء کا کردار انتہائی
روشن رہا وہیں اس زبان کو اوج ثریا پر پہنچانے میں شعراء کا بھی
اہم رول رہا ہے؛ بلکہ شاعری کو تو اردو ادب کی جان کہا گیا
ہے۔
دبستانِ اردو کے انہیں متنوع پھولوں
میں سے ایک خوبصورت نام ”مولانا ریاست علی ظفر صاحب“ کا
بھی ہے، آپ جہاں ایک ذی استعداد عالم دین، مقبول مدرس،
ماہر منتظم اور صاحب طرز ادیب ہیں وہیں آپ کے ذوقِ سخن کی
رفعت اور شاعرانہ عظمت لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہوئی نظر
آرہی ہے۔
اردو زبان کے تحفظ و بقا،اس کے جاہ وجلال
کی پاسداری اوراس کی روح کی شادابی کے سامان فراہم
کرنے میں شعراء نے اپنے فکر کی بلندی، ہنر کے معجزے، عشق و محبت
کے کرشمے کا مظاہرہ کیا، ان کے کلام میں حقیقت کی آمیزش
زیادہ اور مجاز کی کم ہوا کرتی تھی، ان کی شاعری
میں مذہب کارنگ، سوزِ دروں کی شعلہ نوائی اور بھائی چارگی
کا پیغام بھی ہوا کرتا تھا اور سب سے بڑھ کر اس زبان کا مرکزی
نقطہ ”قومی یکجہتی“ کو فروغ دینے میں ان شعراء نے
نمایاں کردارادا کیا بلکہ اس عظیم زبان کو دل و جان سے زیادہ
عزیز بناکر اسے زندہ اور زندگی بخش حیثیت عطا کی
انہیں عظیم معماروں میں مولانا ریاست علی ظفر صاحب
کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔
یوں تو آپ سادہ لباس و سادہ مزاج ہیں
مگراسی کے ساتھ خوش رو، خوش فکر اور خوش کلام بھی، آپ نے شعر وسخن کو
نہ تو مستقل مشغلہ بنایا اور نہ ہی دورِ حاضر کے شعراء کی طرح
آسائش زندگی کا ذریعہ، مگر ہاں! اردو ادب سے مولانا موصوف کا مخلصانہ
تعلق رہا اور ہے چنانچہ آپ کی ہر نظم، ہر نعت اور ہر غزل میں کوئی
نہ کوئی سبق اور کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ملتا ہے۔
جیسے نظم ”محبت“ میںآ پ یوں گنگناتے نظر آتے ہیں:
محبت
ماورائے ایں و آں ہے محبت
حاصلِ کون و مکاں ہے
محبت
ترجمانِ راز ہستی محبت
چشمِ قدرت کی زباں ہے
محبت
التہابِ برقِ ایمن کلیم
طور کا عزمِ جواں ہے
آپ ان کی نعت میں درس و پیام
کو دیکھ سکتے ہیں کہ:
ہر
اک بہار نے آکر تری شہادت دی چمن
چمن سے ملا ہے تیرا پیام مجھے
ظفرؔ
نہ پوچھ، قیامت ہے وہ نظر جس نے سکھا
دیا ہے تمنا کا احترام مجھے
اسی طرح آپ کے فن کی جلوہ
سامانی غزل کے پیرایے میں نظر آتی ہے کہ:
پھر آستیں کو شوق مری چشمِ نم کا ہے
کم کررہا ہوں قیمتِ لعل و گوہر کو میں
---------------
لالہٴ و گل کی عافیت ، برق سے ملتجی نہیں
برق کہاں جھکائے سر ، لالہ و گل نہ ہو اگر
آپ کے ذہن رسا سے تو سخن وری کے
مختلف چشمے پھوٹے اور لوگوں کی سیرابی کا سامان فراہم کرتے رہے؛
لیکن تغزل کی شفافیت اور مٹھاس ہر ایک میں اپنے
وجود کا احساس دلاتی ہے، یوں تومولانا ظفر بجنوری کے کلام میں
تنوع، البیلاپن، مضمون کی توانائی ان کی انفرادیت کی
عکاسی کرتی ہے اس کے باوجود ان کی شاعری میں کبھی
میر کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ جیسے:
رُت
بدلے گی، پھول کھلیں گی، جام مجھے چھلکانے دو
جام
مجھے چھلکانے دو ، کونین کو وجد میں آنے دو
تو کبھی غالب کا آہنگ، حسرت مرحوم
کے رنگ تغزل سے بھی مولانا موصوف کا سخن خالی نہیں؛ بلکہ کہیں
کہیں اقبال کا طرزِ بیان بھی نظر آتا ہے۔
کسے
نسبت ہے چشمِ معتبر سے حذر اے دل !
جہانِ کم نظر سے
منور
ہے حریمِ زندگانی گداز
شام سے آہ سحر سے
مولانا ریاست علی ظفر بجنوری
کی عبقریت و انفرادیت کی ترجمانی ترانہٴ
دارالعلوم سے بھی پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ کس سلیقے
سے انوکھے اور اچھوتے آہنگ میں اسے ڈھالا کہ اس کے ایک ایک
مصرعہ سے جہاں دارالعلوم کی عظیم دینی خدمات، اس کی
تاریخی و انقلابی حیثیت اور اس کے ارباب کی
گوناگوں خصوصیات، احیائے دین کی خاطر جہد مسلسل اور ملک کی
آزادی کیلئے عظیم قربانیاں گویا اس عظیم
درسگاہ کی پوری داستان نکھر کر سامنے آجاتی ہے وہیں آپ کی
سخن وری، فصاحت و بلاغت گہرائی و گیرائی اور امتیازی
مقام کاپتہ چلتا ہے۔
چنانچہ مولانا لقمان الحق صاحب فاروقی
مرحوم مولانا بجنوری کی سخن سنجی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”انھوں (جناب ظفر بجنوری) نے دارالعلوم کاترانہ لکھا، اس میں
دارالعلوم کی خصوصیات بھی ہیں، اکابر دارالعلوم کا ان کے
امتیازی رنگ کے ساتھ تذکرہ بھی ہے، تاریخی واقعات کی
طرف اشارے بھی ہیں۔“ آگے آپ کے رنگ تغزل کا تذکرہ کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: ”لیکن ان تمام مضامین کے بیان میں شعری
اصطلاحات اور تغزل کے تحفظ کا جو ثبوت ظفر بجنوری نے پیش کیا ہے
وہ ان کی انفرادیت کی واضح علامت ہے۔
مولانا موصوف نے اپنے کلام میں
دارالعلوم دیوبند کی تاریخی حیثیت کی
تصویر کشی اس عمدگی سے کی کہ بیک نظر اس کی
پوری تاریخ نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے مثلاً:
یہ
علم و ہنر کا گہوارہ، تاریخ کا وہ شہہ پارہ ہے
ہرپھول
یہاں اک شعلہ ہے، ہر سرو یہاں مینارہ ہے
اس شعر میں مولانا نے دارالعلوم دیوبند
کے مقصد تاسیس کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اسے تاریخ عالم کا
ایک عظیم سرمایہ بھی قرار دیا، یہاں کے خوشہ
چینوں کو پھول اور پہاڑ جیسے ان کے بلند عزائم و افکار کو شعلہ سے تشبیہ
دی ہے اور ”ہر سرو یہاں مینارہ“ سے اس قلعہٴ اسلامی
کی عظمت کو سراہا ہے۔ مولانا کا یہ قدیم تاریخ اردو
روایتوں کو خوبصورتی کے ساتھ نیالب ولہجہ اور نیا پیراہن
عطاکرتا ہے۔
چوں کہ اردو ادب کا عظیم سرمایہ
شاعری بھی ہے اور شاعری کی آبرو غزل ہے، مولانا کے تغزل میں
ابتذال سے پاک حسن و عشق کی رعنائی بھی ہے، عالمانہ پختگی
کے ساتھ تصوف اور علم و حکمت کاآہنگ بھی اوراخلاق و سیاست کا رنگ بھی۔
اس وقت مولانا موصوف اپنی عمر کی
۶۸ویں منزل طے کررہے ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے ہر
چیز سے یکسو ہوکر تدریس حدیث میں پورے طور پر منہمک
ہیں اورایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ
دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی خدمات انجام دے رہے ہیں،
آپ کے شاگرد ایک طرف احادیث نبوی (…) کی شیرینی
سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو دوسری طرف اسلوب کی سادگی کے
باوجود ادب کے موتیوں سے اپنے دامن دل کو بھر کر ذوقِ سخن کو توانائی
بخشتے ہیں۔
آپ کے اشہب قلم سے نکلے ہوئے لعل و گوہر
کا مجموعہ ”نغمہ سحر“ کی شکل میں مولانا موصوف کی ادبی
شان کی عبقریت پر غماز ہے اور اس کتاب کو غزل کا نگینہ اور ادب
کے شائقین کیلئے متاعِ گراں مایہ کہا جاسکتا ہے۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12،
جلد: 90 ،ذیقعدہ 1427 ہجری مطابق دسمبر2006ء